منگل، 18 فروری، 2014

بسم اللہ ایک شعیرہ اسلام

بسم اللہ      ایک  شَعِيرَة  اسلام


یہ طائف ہے۔

یہاں  کے  شرفاء  نے  نہایت  بے  رخی  و  بد  اخلاقی  کا  ثبوت  دیا‘  نہ صرف  نازیبا  سلوک  کیا  بلکہ  یہاں کے اوباشوں تشدد پر اکسایا اور ان اوباشوں نے  شقاوتِ  قلبی  کی  انتہا  کر دی  ہے۔

صادق و امین رحت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم پر اتنے پتھر برسائے کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے لت پت ہوگئیں، درد کی شدت سے آپؐ  بیٹھ  جاتے  تو  آپؐ  کو  کھڑا  کر دیتے  اور  پھر  پتھر  برسائے  جاتے۔  یہ  ظلم  کی  انتہا  تھی  جس  کا  آج  کے  دور  میں  تصور  محال بھی  ہے۔  آج  جو  دنیا  مہذب  ہویٴ  ہے  تو  ان  ہی  ظلمتوں  میں  جسم  مبارک  پہ  پتھروں  کے  بارش  سے  لہو لہان  ہونے  کے  باوجود  صبر  اور  دعا   کی  برکت  سے  ہی  ہوی  ہے۔

زخموں سے چُور اور مجبور ہوکر آپؐ نے ایک باغ میں پناہ لی جو عتبہ اور شیبہ کی ملکیت ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ انگور کی ایک بیل کی طرف بڑھتے ہیں اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔

 طائف کے اوباش جا چکے ہیں۔

عتبہ اور شیبہ بھی باغ میں موجود ہیں۔

عتبہ اور شیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حالت میں دیکھا تو اُن کے اندر کی قبائلی حمیت جاگ اُٹھی‘ انہیں ترس آگیا۔

انہوں نے  عداس  نامی اپنے ایک نصرانی غلام کو بلایا اور ان سے کہا انگور کے چند خوشے ایک پلیٹ میں رکھ کر اس آدمی کے پاس لے جاوٴ اور اس سے کہو کھا لے۔

 عداس انگور کی پلیٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش کیا اور بولا:  ’’ کھائیے۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’ بسم اللہ ‘‘  پڑھ  کر اپنا ہاتھ بڑھایا  اور کھانا شروع  کردیا ۔

 ’’ بسم اﷲ‘‘  پر عداس کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی‘ اس نے حیرت سے  آپؐ   کی طرف  دیکھا اور عرض کیا:

’’ اس علاقے کے لوگ تو یہ کلمات  نہیں کہتے۔‘‘

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ عداس ! تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔‘‘

اس نےجواب دیا: ’’ میں نصرانی ہوں اور نینویٰ کاباشندہ ہوں ۔‘‘

رسول اللہؐ   بولے:

’’ مرد صالح یونس بن متیٰ کی بستی سے ؟ ‘‘

’’ آپ کو کیا معلوم کہ  یونس بن متیٰ کون ہیں ؟ ‘‘ عداس کی حیرانی اور بڑھ گئی۔

رسول اللہؐ   نے بتایا:

’’ وہ میرے بھایٴ ہیں۔ وہ نبی تھے اور میں بھی  نبی  ہوں۔‘‘

عداس نے نبوت کے یہ آثار وصفات دیکھ کر آپ کے سر اور ہاتھ  پاوٴں کا بوسہ دیا اور کہہ اُٹھے:

 أَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدَ اللهِ وَرَسُوْلُهُ۔            

 " میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ "

واپس  اپنے مالکان کی خدمت میں پہنچا تو اُنہوں نے اسے ڈانٹا لیکن غلامِ  بے نوا  کے  لبوں  پر  یہ  الفاظ  مچل  اُٹھے :

ما فی الأرض خير من هذا۔     ’’روئے زمین پرآج ان سے بہتر کوئی نہیں۔‘‘

 جی حضرت عداس  رضی اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ کہا:

جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے برگزیدہ بنا کر اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہو ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔ اور تاریخ نے یہ ثابت کر دیا۔

رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم پہ ہم سب فدا ہوں !

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے جہراً  نکلا ہوا ’’  بسم اﷲ‘‘  نے ایک عیسایٴ کو مسلمان بنا دیا۔

آج ہم اس شعائر اسلام پہ کتنا عمل پیرا ہیں۔  ہم میں سے کتنے ہیں جو جہراً  ’’  بسم اﷲ‘‘   کہتے ہیں۔

 کتنے ہیں جو کسی غیر مسلم کے محفل میں بیٹھ کر کھاتے پیتے  ہوئے  یا  کسی غیر مسلم  سے کویٴ لین دین کرتے ہوئے با آواز بلند  ’’  بسم اﷲ‘‘  کہتے ہیں۔  ہمارے دلوں میں داعیٴ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم والی  داعیانہ تڑپ کیوں پیدا نہیں ہوتی کہ ہمارے قول و فعل سے کویٴ جہنم میں جانے سے بچ جائے۔

 بلند آواز  سے ’’ بسم اﷲ‘‘  کہنے میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ ہم میں سے جو لوگ  ’’  بسم اﷲ ‘‘   کہنا بھول جاتیں ہیں  وہ بھی کہہ پائیں گیں۔

 ایک دور تھا جب مسلمان دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا شروع  کیجئیے یا تناول فرمائیے کہنے کے بجائیے  ’’  بسم اﷲ ‘‘   کیجئیے کہتے تھے لیکن آج کے جدید دور میں اب یہ کہنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح مسلمانوں میں کویٴ بھی کام مل جل کر شروع کرنے سے پہلے  ’ شروع کیجئے ‘  کہنے کے بجائے  ’’  بسم اﷲ ‘‘   کیجئے  ہی  کہنے کا رواج تھا  لیکن آج یہ بھی نا پید ہے۔

لیکن آج ہم صرف قرآن کی تلاوت کرتے وقت‘ درس و تدریس میں یا پھر کویٴ اسلامی تقریر کرتے وقت ہی جہراً  ’’ بسم اللہ ‘‘ کہتے ہیں۔

’’ بسم اﷲ‘‘ کی فضیلت و برکت  کے بارے ہم میں کویٴ بھی انکاری نہیں لیکن ہم عملی طور پہ اس شعائر اسلام سے دن بدن دور ہوتے جارہے ہیں۔

تو آئیے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت کو زندہ کریں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سبق سکھایا ہے:

 ’’اغلق بابک واذکر اسم اللہ واطفي مصباحک واذکراسم اللہ و خمراناءک واذکراسم اللہ واوک سقاءک واذکراسم اللہ ‘‘  (تفسیر القرطبی)

ترجمہ : دروازہ بند کروں تو اللہ کا نام لیا کرو۔ دیا بجھاو تو اللہ کا نام لیا کرو۔  اپنے  برتن ڈھانپو تو اللہ کا نام لیا کرو۔ اپنی مشک کا منہ باندھو تو اللہ کا نام لیا کرو۔

مقصد یہ ہے کہ ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا کرتے وقت انسان اپنے کار ساز حقیقی کا نام لینے کا خوگر ہو جائے تاکہ اس کی برکت سے مشکلیں آسان ہوں ۔ اس کی تائید و نصرت پر اس کا توکل پختہ ہو جائے۔ نیز جب اسے ہر کام شروع کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی عادت ہو جائے گی تو وہ ہر ایسا کام کرنے سے رک جائے گا جس میں اس کے رب تعالی کی ناراضگی ہو ۔

اے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے ہمیں‘ ہمارے بچوں اور آئندہ نسلوں کو اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنتوں پر پورا پورا عمل کرنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالین.

اَللّٰھُمَّ  صَلِّ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ  عَلٰٓی  اٰلِ   مُحَمَّدٍ  کَمَا  صَلَّیْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ

اَللّٰھُمَّ  بَارِکْ  عَلٰی  مُحَمَّدٍ  وَّ عَلٰٓی  اٰلِ  مُحَمَّدٍ  کَمَا  بَارَکْتَ  عَلٰٓی  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلٰٓی  اٰلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدٌ  مَّجِیْدٌ

24 گھنٹے مومن

   ـــــــــــــــــــــــ   24 گھنٹے ’’ مومن ‘‘  ـــــــــــــــــــــــ

اللہ  کے قانون کے مطابق چوری ثابت ہو چکی ہے اور شرعی حد نافذ ہو چکا ہے۔

قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون نے چوری کی ہے۔ اب اسکا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔

قبائل نظام میں یہ بڑی شرم کی بات ہے‘ قبیلہ بنو مخزوم کے سر کردہ افراد کسی کو منھ دکھلانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

اور یہ سونچ سونچ کر قبیلہ کا ایک ایک فرد پریشان ہے۔

باہمی مشورے  ہو رہے ہیں کہ کسی طرح یہ سزا ٹل جاےٴ۔ اور  بنو مخزوم کی عزت خاک میں ملنے سے بچ جائے ۔

لیکن لیکن منصب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  ہیں۔  حد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم  نے قائم کی ہے

کون بات کرے کس میں اتنی جرائت ہے ‘  کون ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا پیارا جوسفارش کرنے کی جسارت کرے ۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کے کسی پیارے کو ڈھونڈھا جا رہا ہے اور بالآخر انہوں نے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے محبوب  کو ڈھونڈ ہی لیا۔

یہ ہیں سیدنا  اسامہ  بن  زید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ.

جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ہی تو فرمایا ہے:

’’ اے میرے صحابہ ! اسامہ مجھے تم سب سے زیادہ  پیارا  ہے‘  اس سے  اچھا  سلوک  کرنا۔ ‘‘

بنو مخزوم حضرت اسامہؓ  کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کے پیار کا واسطہ دیکر راضی کر لیا   کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  سےسفارش کریں تاکہ

’’ انکے قبیلے کی عورت‘ جس پہ چوری کی حد نافذ ہے اسکی ہاتھ نہ کاٹی جاے۔

رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم   آپؓ سے ہم سب سے زیادہ  پیار کرتے ہیں  ممکن  ہے  آپؓ کی سفارش مان لیں اور حد نافذ کرنے کا حکم صادر نہ کریں اور ہمارے قبیلے کی عزت برقرار رہے‘ ورنہ ہم لوگوں کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔

حضرت اسامہؓ بنو مخزوم کی  لجاجت‘  پشیمانی  و  پریشانی  کو  ملحوظ  خاطر رکھتے  ہوےٴ  شاہ امم سلطانہ مدینہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر  مخزومیہ عورت کے حق میں سفارش  پیش کر دی۔

لیکن اسامہؓ   کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس بات کی جسارت کرنے جا رہے  ہیں  یہ اللہ کی حدود میں صریحاــٌ  مداخلت کی جسارت تھی -

شفارش سنتے  ہی  آپ  صلی اللہ علیہ و سلم  کے  چہرے  کا  رنگ  بدل  گیا  اور  آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا :

’’ تم  مجھ  سے  اللہ  کی  قائم  کی  ہوئی  ایک  حد  کے  بارے  میں  سفارش  کرنے  آئے  ہو۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کو غضبناک  دیکھ  کر اسامہؓ  کو  اپنی غلطی  کا  احساس  ہوا  تو  انہو نے عرض کیا:

 ’’ یا رسول اللہ !  میرے لئے دعائے مغفرت کیجئے -‘‘

پھر دوپہر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا ‘ اللہ تعالیٰ کی اس کے شان کے مطابق تعریف کرنے کے بعد فرمایا :

اما بعد !  تم میں سے  پہلے  لوگ  اس  لئے  ہلاک  ہو گئے  کہ  اگر  ان  میں  سے  کویٴ  معزز  شخص  چوری  کرتا  تو  اسے  چھوڑ  دیتے  لیکن  اگر  کویٴ  کمزور  چوری  کرتا  تو  اس  پر  حد  قائم  کرتے  اور  اس  ذات  کی  قسم  جس  کے  ہاتھ  میں  محمد صلی اللہ علیہ و سلم  کی  جان  ہے  اگر  فاطمہ  بنت  محمد  بھی  چوری  کرلے  تو  میں  اس  کا  ہاتھ  کاٹوں  گا۔

اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس عورت کے لئے حکم  دیا اور ان  کا  ہاتھ  کاٹ  دیا  گیا۔

پھر اس عورت نے صدق  دل  سے توبہ  کرلی  اور شادی بھی کر لی ۔  (صحیح البخاری و مسلم  )

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے  بیان  کیا  کہ بعد میں  وہ  میرے  پاس آتی تھیں۔  ان کو اور کویٴ  ضرورت  ہوتی  تو  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے  سامنے  پیش  کر  دیتی۔     (صحیح البخاری و مسلم  )

اب اس حدود اللہ کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان بھی سن لیں:

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (سورة المائدة: آیت نمبر۳۸)

اور چور،  خواہ   مرد  ہو  یا  عورت   دونوں  کے   ہاتھ   کاٹ   دو۔   ان   کے   کر  توتوں   کے   عوض   میں   اللہ   کی   طرف   سے   بطور   عبرتناک  سزا  کے ۔  اللہ   زبردست   ہے،   بڑا   حکمت   والا   ہے۔

چوری اتنا بڑا جرم ہے اور ایک ایسی  معاشرتی  برایٴ  ہے  کہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے  اسکی  سزا  میں  ’’ ہاتھ کاٹنا ‘‘  مقرر  کی  ہے اور اس سزا کو ’’  نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ   ‘‘  یعنی  اللہ تعالیٰ  کی  طرف  سے  "عبرت ناک  سزا " کہا  گیا  ہے۔   یعنی چوری کرنے والے شخص کو معاشرے میں عبرت کا نمونہ بنا کر چھوڑ دیا جائے تاکہ کویٴ اور چوری کرنے کی جراٴت نہ کر سکے۔

لیکن اب ہمارے معاشرے کو  اس سے بڑی بڑی اور ایسی ایسی سنگین جرائم نے گھیر لیا ہے کہ اب چوری ایک عام بات ہو گیٴ ہے  اور ملک عزیز میں زیادہ تر لوگ‘  کیا عام ہو یا  خاص،   چوری کرنے کے گھناوٴنے جرم میں اپنا اپنا حصہ ڈال  رہے ہیں۔

کویٴ بجلی چور ہے  تو  کویٴ  گیس  چور  اور  کویٴ  پانی  چور-

کویٴ ٹیکس چوری کرتا ہے تو کویٴ  اکاوٴنٹ  میں  خرد برد  کرتا  ہے-

کویٴ مال  و  دولت کا چور ہے تو کویٴ عزت و آبرو کا چور-

کویٴ بنک میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو کویٴ دوکان و مکان کا صفایا کرتا ہے-

کویٴ  موبائل و پرس چھینتا ہے  تو کویٴ  کار چوری کرتا ہے-

کویٴ ریوالور دکھا کر چھینتا ہے تو کویٴ اپنے عہدے کا دھونس جما کر-

کویٴ کمپیوٹر سافٹ ویر چراتا ہے تو کویٴ  کمپیوٹر سے لوگوں کی شناخت کی چوری کرتا ہے۔

کویٴ آفس اسٹیشنری چراتا ہے تو  کویٴ آفس دیر سے آکر وقت کی چوری کرتا ہے-

کویٴ بازار میں لوٹتا ہے تو کویٴ محلے  کے  نکڑ اور  گھر کی دہلیز پر-

کویٴ سرکاری اداروں میں رہ کر چوری کرتا ہے تو کویٴ پرائیویٹ اداروں میں رہ کر-

کویٴ دفتروں و  بازاروں میں چوری کرتا ہے تو کویٴ  کارخانوں و  کھَلْیانوں  میں -

کویٴ تھا نہ میں  چوری کرتا ہے تو کویٴ کوٹ کچہری میں-

کویٴ غریب کا بچہ چرا کر بیچ ڈالتا ہے تو  کویٴ امیر کا بچہ چرا کر تاوان مانگتا ہے-

یہاں غریب اپنے  بچے کو روٹی کپڑا دینے کے لئے چراتا ہے تو امیر اپنے بچے کو ٹھاٹ باٹ کرانے کے لئے-

کویٴ غربت مٹانے کے لئے چوری کرتا ہے تو کویٴ  امارت  بڑھانے کے لئے-

یہاں چور  بھی چور ہیں اور  محافظ و پہرے دار بھی چور-

یہاں کے منصب بھی چور  ہیں اور حکمراں بھی-

یہاں غریب بھی چور  ہیں اور امیر بھی-

یہاں جو جتنا بڑا ہے اُتنا بڑا چور ہے-

۔۔۔۔  لیکن تمام تر چوری  کرنے کے باوجود  بھی  ۔۔۔۔   سب  مسلمان  ہیں ۔۔۔۔ سب  مومن  ہیں   ۔۔۔

جی ہاں ۔۔۔  سب  مسلمان  ہیں ۔۔۔۔  سب  مومن  ہیں   ۔۔۔

لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے   تو کچھ اور ہی نے فرمایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" چور جب چوری کرتا ہے تو اس  وقت  وہ  مومن  نہیں  ہوتا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***  یعنی چوری کرنے کے عمل کے دوران  ’’ مومن ‘‘ نہیں رہتا۔ ***

صحیح بخاری : حدیث نمبر( 5578 ، 2475)

اب اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں  وطنِ عزیز  میں عام و خاص جو  اُوپر  بیان  کئے  گئے چوری  کے  گھناوٴنے  جرم  میں ملوث  ہیں ‘ آج  خود  ہی  اپنا  محاسبہ  کرلیں  اور  دیکھیں کہ  وہ  کتنے  وقت  کے لئے  ’’ مومن ‘‘  ہیں  اور  کتنے  وقت  کے لئے  ’’ مومن ‘‘ نہیں ہیں:

گیس‘  بجلی  اور  پانی  کی  چوری ۔۔ چوبیس (24) گھنٹے کی چوری  ہے۔  لہذا  جو  لوگ  ان  میں  یا  ان  جیسی  دوسری چوبیس (24)  گھنٹے کی  چوریوں میں ملوث ہیں‘  وہ  مذکورہ  حدیث  کے  مطابق  ۔۔۔ چوبیس (24)   گھنٹے " مومن " نہیں ہوتے۔ 

لہذا

 24 گھنٹے  چوری کرنے کی عمل سے گزرنے والے  ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

 چوری کے بجلی سے 24   گھنٹے آرام دہ  زندگی  گزارنے  والے  ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

چوری  کی  تھنڈی  تھنڈی  پانی 24 گھنٹے استعمال کرنے والے ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

چوری  کی گیس سے 24 گھنٹے مزے مزے کی کھانے پکا کر کھانے والے ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

چوری  کی  دولت  سے  غربت  مٹانے  والے ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

چوری  کی  دولت   سے  امارت  بڑھانے  والے  ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

چوری  کی  دولت  سے اپنے  بچوں   کو  ٹھاٹ باٹ  کرانے  والے  ۔۔۔۔۔   کیا مومن ہیں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے فرمان کے مطابق تو  ایسے لوگ " مومن " نہیں رہتے کیوں کہ یہ ہر وقت ’’ چوری ‘‘ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اور ان پر ہر وقت  اللہ کی ’’ لعنت ‘‘ پڑ  رہی ہے  کیوں کہ اللہ  سبحانہ و تعالیٰ  نے  چور  پر ’’ لعنت ‘‘ بھیجی ہے ۔ ( صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح: 6783) 

لعنت   کا  مطلب  ہے  اللہ  کی  رحمت  سے  دوری  اور  جسے  اللہ  اپنی  رحمت  سے  دور  کر  دے  اس  کا  ٹھکانا  کہاں  ہو سکتا  ہے۔  تو  اللہ کے  بندوں!   اگرچہ  چوری  کرنے  پہ  آج  چور  کا  ہاتھ نہیں کاٹا جاتا  لیکن اللہ  کی لعنت  تو ہر آن  برس  رہی  ہے۔

اللہ کی رحمت سے دوری کی وجہ کر  آج ایسے  گھر وں میں بے سکونی ہی بے سکونی ہے‘ دنیا کی مال اسباب اور ہر آشائش ہونے کے باوجود بے سکونی ہے۔

سکون تو اللہ کی رحمتوں سے ملتی ہے-

جس کے لئے  ہر طرح کی چوری کرنا چھوڑنا ہوگا اور   "  24  گھنٹے  مومن " بنے رہنا ہوگاں اور  لعنت کی بجائے ہر وقت اللہ کی رحمتوں میں میں رہنا ہوگا۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں میں رکھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنتوں کو اپنانے والا بنائے۔  ہر برایٴ سے دور اور ہر بھلایٴ سے نزدیک کر دے۔

آمین یا رب العالمین

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ